Wednesday, May 23, 2012

خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

دل میں ٹھہرے ہے نہ پلکوں پہ ہی رکھا جائے
خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

ایسی ناکام محبت کا کوئی کیا کر لے
وہ مرے ساتھ چلے اور نہ تنہا جائے

مسئلہ قرب و جدائی کا تو چھوڑو کہ ابھی
عشق کس طرز کا ہوگا یہی سوچا جائے

ذہن بھی سوچ بھی آنکھیں بھی جگر بھی دل بھی
سب ترا پھر بھی مجھے غیر کا سمجھا جائے

جان تو یار کی چوکھٹ پہ ہی دھر آئی وہ
جسم کیا لاش ہے اب جس کو بھی سونپا جائے

مجھ کو معلوم ہے اوقات مقددر کی مگر
دل بہلتا ہے جو خوابوں سے بہلتا جائے

خود کو ایذا نہیں دیتا مگر اس عشق میں اب
درد کا کوئی نشہ سا ہے کہ چڑھتا جائے

No comments:

Post a Comment