تجھ کو تو یہ گلہ ہے کہ تیرا نہیں رہا
چھو کر کبھی توْ دیکھ کہ میں تھا نہیں رہا
دیکھوں تو چار سمت ہے حلقہِ دوستاں
دیکھوں تو چار سمت ہے حلقہِ دوستاں
سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا
ہر شخص ڈھونڈتا ہے فقط آئینہ یہاں
میں آشکار کیا ہوا اس کا نہیں رہا
دل کی تو تھپکیاں تھیں محبت بڑھانے تک
اب مسئلہ ہمارا ہے دل کا نہیں رہا
مجھ کو تلاشِ یزداں کی ضد تھی جنون تھا
اتنا بھٹک گیا کہ کہیں کا نہیں رہا
راہِ سلوک ملتی نہیں عقل کے طفیل
حجت میں پڑ گئے تو عقیدہ نہیں رہا
No comments:
Post a Comment