Wednesday, July 25, 2012

سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

تجھ کو تو یہ گلہ ہے کہ تیرا نہیں رہا
چھو کر کبھی توْ دیکھ کہ میں تھا نہیں رہا

دیکھوں تو چار سمت ہے حلقہِ دوستاں
سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

ہر شخص ڈھونڈتا ہے فقط آئینہ یہاں
میں آشکار کیا ہوا اس کا نہیں رہا

دل کی تو تھپکیاں تھیں محبت بڑھانے تک
اب مسئلہ ہمارا ہے دل کا نہیں رہا

مجھ کو تلاشِ یزداں کی ضد تھی جنون تھا
اتنا بھٹک گیا کہ کہیں کا نہیں رہا

راہِ سلوک ملتی نہیں عقل کے طفیل
حجت میں پڑ گئے تو عقیدہ نہیں رہا


No comments:

Post a Comment