ڈھل گئی عمر تو سرکار چلے آئے ہیں
جیب خالی لیے بازار چلے آئے ہیں
حسن تھک ہار کے اب ہو بھی چکا بیگانہ
آپ اب عشق میں سرشار چلے آئے ہیں
محفلیں جب تھی جواں دشت میں جا بیٹھے تھے
چھٹ گیا میلہ تو دربار چلے آئے ہیں
جب تلک پاس تھے کچھ فیصلہ دل سے نہ ہوا
ہجر میں عشق کے آزار چلے ائے ہیں
خود کو جب بانٹتے پھرتے تھے کوئی لیتا نہ تھا
بٹ گیا سب تو خریدا چلے آئے ہیں
No comments:
Post a Comment