Tuesday, March 20, 2012

گو مل رہا ہے مزاج اپنا

گو مل رہا ہے مزاج اپنا، مگر ستارے نہ مل سکیں گے
کہ اپنی کشتی ہے بادبانی، ہمیں کنارے نہ مل سکیں گے

میں ریت ہاتھوں میں لے کے بیٹھا نہ جانے کب سے یہ سوچتا ہوں
اٹھے گی جب بھی یہ لال آندھی، مجھے اشارے نہ مل سکیں گے

وہ جلد بازی وہ بے نیازی، مری جوانی کا کچھ نہ پوچھو
میں بانٹ آیا ہوں خود کو ایسے کہ اب سہارے نہ مل سکیں گے

تمہاری آنکھوں میں جب سے دیکھا، میں اپنے ماضی میں آگیا ہوں
بہت سے خوابوں کو پا گیا ہوں مگر وہ سارے نہ مل سکیں گے

تلاش جن کی تھی مدتوں سے، وہ سارے گوہر  ہیں تیرے اندر
مگر میں آیا بھنور کی زد پر، مجھے کنارے نہ مل سکیں گے

No comments:

Post a Comment