Sunday, March 25, 2012

سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

گرزرتے وقت کو بوتل میں باندھ کر رکھ لے
تر میری زیست ہی اس پل میں باندھ کر رکھ لے

میں جابجا ہوں کوئی بکھری ریزگاری ہوں
سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

میں کام کا تو نہیں پھر بھی احتیاطا ہی
اضافی خواب کو کاجل میں باندھ کر رکھ لے

تو میری زیست کا حاصل، تو میری جان کی لو
مجھے سنبھال لے اور دل میں باندھ کر رکھ لے

تو ایک سیپ کہ قسمت سے جو ملی مجھو
سو میری موج کو ساحل میں باندھ کر رکھ لے

میں تجھ میں ایسے ملوں پانی میں چینی جیسے
سو مجھ کو ذات کے منحل میں باندھ کر رکھ لے

No comments:

Post a Comment