Monday, April 2, 2012

نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم




پھٹ جائیں گے کچھ پل میں غبارے کی طرح ہم
آئے ہیں ترے حق میں خسارے کی طرح ہم

رو رو کے بلائے گا وہ اک پھول کنول کا
بہتے ہوئے بہہ جائیں گے دھارے کی طرح ہم

جینا ہے کوئی ہنر تو ہم کو بھی سکھا دو
ٹوٹے ہیں مقدر کے ستارے کی طرح ہم

مجمع سا لگایا ہے تماشائے وفا نے
نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم

چلتے ہیں ترے شانوں پہ رکھے ہوئے بازو
کہنے کو تو ہیں ساتھ سہارے کی طرح ہم

پتھر کے مجسم میں لہو ڈھونڈ رہے تھے
مسمار ہوئے ریت کے گارے کی طرح ہم

No comments:

Post a Comment