Thursday, April 19, 2012

ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

زندگی سہمی ہوئی بیٹھی دفینوں کے بیچ
ڈوبتا جائے کوئی شخص سفینوں کے بیچ

گھر میں دولت بھی ہے آسائشِ دنیا بھی ہے
ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

لڑجھگڑ کر ہی چلا آتا ہوں گھر سے ہر روز
آگ ہروقت سلگتی رہے سینوں کے بیچ

کتنے کمزور ارادے دلِ بے کس کے ہیں
کہ بہک جاتا پی زاہد بھی حسینوں کے بیچ

ہم جسے سمجھے تھے طاقت کا حوالہ وہ شخص
روگ نے چاٹ لیا کچھ ہی مہینوں کے بیچ

No comments:

Post a Comment