Saturday, April 7, 2012

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ
اور دنیا کے مناظر سے نکل جائے وہ‬

نہ کوئی رسم نہ بندش ہو زمانے کی پھر
   کہ مرے جسم کے لوہو میں ہی ڈھل جائے وہ‬

اس کو پی لوں میں کسی آب مبارک کی طرح
سو مری ذات کو جنت میں بدل جائے وہ

اس سے بڑھ کر بھی گلستاں کا حوالہ ہوگا
جب کبھی بات کرے بھول سا کھل جائے وہ


اپنی ساننسوں میں اسے ایسے اتاروں اک دن
کہ مرے سینہ بے تاب میں گل جائے وہ
کہ میری سانس کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
کہ میری سینے کی گرمی میں ہی گل جائے وہ

آسمانوں کی طرف ایسے اچھالوں اس کو
اس زمانے کے حوادث سے نکل جائے وہ

No comments:

Post a Comment