تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ
اور دنیا کے مناظر سے نکل جائے وہ
نہ کوئی رسم نہ بندش ہو زمانے کی پھر
اور دنیا کے مناظر سے نکل جائے وہ
نہ کوئی رسم نہ بندش ہو زمانے کی پھر
کہ مرے جسم کے لوہو میں ہی ڈھل جائے وہ
اس کو پی لوں میں کسی آب مبارک کی طرح
سو مری ذات کو جنت میں بدل جائے وہ
سو مری ذات کو جنت میں بدل جائے وہ
اس سے بڑھ کر بھی گلستاں کا حوالہ ہوگا
جب کبھی بات کرے بھول سا کھل جائے وہ
جب کبھی بات کرے بھول سا کھل جائے وہ
اپنی ساننسوں میں اسے ایسے اتاروں اک دن
کہ مرے سینہ بے تاب میں گل جائے وہ
کہ مرے سینہ بے تاب میں گل جائے وہ
کہ میری سانس کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
کہ میری سینے کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
کہ میری سینے کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
آسمانوں کی طرف ایسے اچھالوں اس کو
اس زمانے کے حوادث سے نکل جائے وہ
اس زمانے کے حوادث سے نکل جائے وہ
No comments:
Post a Comment