تیری چاہت پہ بضد ہوں مگر اس ضد کا کیا
میں بھی انسان ہوں تھک جائوں گا آخر اک دن
کتنے سالوں سے ترا نام بھی آیا نہ کہیں
یاد بھولے سے چلی آتی ہے مرضی اس کی
شمع کتنی بھی جلے راکھ مقدر اس کا
شعلہ کتنا بھی چڑھے انت دھواں ہی ہو گا
تیرے آنے پہ بہت خوش ہوئے زندہ ہی رہے!
ماتمِ ہجر بھی ہوگا تو کہاں تک ہو گا
اس قدر خوف محبت سے ہے دل میں کہ اب
چاہ کر بھی یہ محبت نہیں ہو گی تجھ سے
پھول جنت سے گرے ہیں کہ حسیں چہرے ہیں
حسنِ انسان سے بڑھ نہیں جلوہ کوئی
میں بھی انسان ہوں تھک جائوں گا آخر اک دن
کتنے سالوں سے ترا نام بھی آیا نہ کہیں
یاد بھولے سے چلی آتی ہے مرضی اس کی
شمع کتنی بھی جلے راکھ مقدر اس کا
شعلہ کتنا بھی چڑھے انت دھواں ہی ہو گا
تیرے آنے پہ بہت خوش ہوئے زندہ ہی رہے!
ماتمِ ہجر بھی ہوگا تو کہاں تک ہو گا
اس قدر خوف محبت سے ہے دل میں کہ اب
چاہ کر بھی یہ محبت نہیں ہو گی تجھ سے
پھول جنت سے گرے ہیں کہ حسیں چہرے ہیں
حسنِ انسان سے بڑھ نہیں جلوہ کوئی
No comments:
Post a Comment