Friday, November 11, 2011

اسے سماج کی شرطوں سے واسطہ کب تھا

سزا وفا کی ملے گی یہ طے ہوا کب تھا
شروع شروع میں محبت سے دکھ ملا کب تھا
میں خواب زار کا باسی، سراب میں ہی رہا
حقیقتوں سے تعارف کا حوصلہ کب تھا
نظر نظر میں ہی صدیوں کے فیصلے ہوں گے
نگاہِ یار کو اس بات کا پتہ کب تھا
وہ ایک شخص مری چاہتوں کا مارا ہوا
اسے سماج کی شرطوں سے واسطہ کب تھا

No comments:

Post a Comment