کڑکتی دھوپ ہے پیڑوں کی چھائوں سے لپٹی
جنم جنم سے ہے تکلیف مائوں سے لپٹی
دل آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر یہ کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی
میں شہر آ تو گیا ہوں یہیں مروں گا بھی
رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی
ہم اہلِ علم ہیں لفظوں سے راستہ پوچھیں
رہیں گی منزلیں مجنوں کے پائوں سے لپٹی
ڈرے ڈرے مرے سب لوگ غیر کے ہیں اسیر
کہ جیسے گرد ہو کوئی ہوائوں سے لپٹی
No comments:
Post a Comment