Thursday, May 30, 2013

رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

کڑکتی دھوپ ہے پیڑوں کی چھائوں سے لپٹی
جنم جنم سے ہے تکلیف مائوں سے لپٹی

دل آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر یہ کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی

میں شہر آ تو گیا ہوں یہیں مروں گا بھی
رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

ہم اہلِ علم ہیں لفظوں سے راستہ پوچھیں
رہیں گی منزلیں مجنوں کے پائوں سے لپٹی

ڈرے ڈرے مرے سب لوگ غیر کے ہیں اسیر
کہ جیسے گرد ہو کوئی ہوائوں سے لپٹی


No comments:

Post a Comment