Saturday, June 5, 2010

کوئی آئے مجھے کتاب کرے

ذات میری کتاب تھی کوئی
رنگ برنگی کہانیوں والی
کچھ محبت کے خواب رکھے تھے
کچھ خیالوں کے چاند بستے تھے
بہت بکتی تھی بازاروں میں
میرا محبوب حسد کر بیٹھا
پرزہ پرزہ اڑا گیا مجھ کو
لفظ سارے ہی چھِل گئے تن سے
کورا کاغذ بنا گیا مجھ کو
میری آنکھوں میں پھر سے خواب بھرے
کوئی آئے مجھے کتاب کرے

No comments:

Post a Comment