Saturday, June 26, 2010

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا
یہ دل ہی روٹھ جائے جب تو دلبر کا منانا کیا

تری دنیا کی شرطوں نے جوانی باندھ کے رکھ دی
پڑی ہو پائوں میں بیڑی تو منزل کا بلانا کیا

چمن میں ایک ہی گل تھا کہ میرے نام پر کھلتا
مگر یہ دھوپ  دنیا کی کہ کھلنا اور کھلانا کیا
 
یہ عادت ہے بری اپنی کبھی مایوس نہ ہونا
وگرنہ خشک پتھر پر گلابوں کو اگانا کیا
 
تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ تم کو کتنا چاہا ہے
یہ باتیں دل کی باتیں ہیں سنانا کیا جتانا کیا
 
ہمیں تسلیم ہے لوگو ، محبت جان لیوا ہے
مگر ہم بےٹھکانوں کا بغیر اس کےٹھکانہ کیا

No comments:

Post a Comment