وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا
یہ دل ہی روٹھ جائے جب تو دلبر کا منانا کیا
یہ دل ہی روٹھ جائے جب تو دلبر کا منانا کیا
تری دنیا کی شرطوں نے جوانی باندھ کے رکھ دی
پڑی ہو پائوں میں بیڑی تو منزل کا بلانا کیا
چمن میں ایک ہی گل تھا کہ میرے نام پر کھلتا
مگر یہ دھوپ دنیا کی کہ کھلنا اور کھلانا کیا
یہ عادت ہے بری اپنی کبھی مایوس نہ ہونا
وگرنہ خشک پتھر پر گلابوں کو اگانا کیا
وگرنہ خشک پتھر پر گلابوں کو اگانا کیا
تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ تم کو کتنا چاہا ہے
یہ باتیں دل کی باتیں ہیں سنانا کیا جتانا کیا
یہ باتیں دل کی باتیں ہیں سنانا کیا جتانا کیا
ہمیں تسلیم ہے لوگو ، محبت جان لیوا ہے
مگر ہم بےٹھکانوں کا بغیر اس کےٹھکانہ کیا
مگر ہم بےٹھکانوں کا بغیر اس کےٹھکانہ کیا
No comments:
Post a Comment