Tuesday, December 13, 2011

میں شرمسارِ قلم ہوں

تھا جال ریشمی دھاگوں کا جو وہ بنتا گیا
میں خوشنمائی کے دھوکے میں قید ہوتا گیا

بس ایک شخص کو قدرت تھی سارے لمحوں پر
کبھی ہنساتا رہا اور کبھی رلاتا گیا

تھا راستوں کا چنائو کہ کھیل قسمت کا
میں جس طرف بھی چلا تجھ سے دور ہٹتا گیا

یہ بات سچ ہے کہ دل کو سکون غم نے دیا
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ غم ہی ملتا گیا

تمام عمر میں خواہش کو زیر کرتا رہا
حقیقتا اسی کوشش میں شوق بڑھتا گیا

میں شرمسارِ قلم ہوں کہ جب بھی لکھنے لگا
اذیّتِ غمِ جاں کا بین کرتا گیا

No comments:

Post a Comment