Thursday, September 22, 2011

مگر یہ کیا ہوا ہم کو

تمہیں ہی سوچتے رہنا
بہت بے کار سے پھرنا
بڑے ہی سست سے ہو کر
خیالوں میں تجھے لا کر
کھٹولے پر پڑے رہنا
یہ عادت تو کبھی نہ تھی
کہ ہم تو زندگانی کے سمندر سے
دوانہ وار لڑتے تھے
بہائو کے مخالف بھی
بڑے گردے سے چلتے تھے
مگر یہ کیا ہوا ہم کو
کہ جب سے تم سے بچھڑے ہیں
یہ بازو ڈھیلے چھوڑے ہیں
سمندر سے یہ کہتے ہیں
ہمیں پاتال تک لے چل
کہ ہم نے موت سے پہلے زمیں کی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونا ہے
دل وحشی کا مفروضہ !
کہ ہم کو ڈوبتا دیکھے تو شاید لوٹ آئے وہ!
دلِ وحشی تو پہلے بھی
بہکتا تھا بھٹکتا تھا
مگر یہ کیا ہوا ہم کو

No comments:

Post a Comment