Monday, August 29, 2011

زندہ رہنے میں اب سہولت ہے

آپ کی انکھ میں محبت ہے
مرے فن کی یہی حقیقت ہے
شور کرتا پھروں میں گلیوں میں
کون سمجھے کہ کیا شکایت ہے
زندگی بھر جو ہم سنا نہ سکے
چار لفظوں کی اک حکایت ہے
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
ہم کو تم سے بہت محبت ہے
تیری یادوں نے ہاتھ تھام لیا
زندہ رہنے میں اب سہولت ہے
روح کے اپنے کچھ تقاضے ہیں
جسم کی اپنی اک روایت ہے
زندگی خودبخود چلی جائے
جیسے دریا میں پات تیرت ہے
ہم ہیں انسان کیا غرور کریں
لمحہ لمحہ ہمیں ضرورت ہے
ایک شکوہ ہے مجھ کو لوگوں سے
بہت خود غرض ان کی عادت ہے

No comments:

Post a Comment