Wednesday, August 24, 2011

خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح

زبدگی تیری مسافت کا بھروسہ ہی نہیں
کوئی منزل کوئی چوکھٹ کوئی رستہ ہیں نہیں
خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح
ہم بھی عاشق تھے کبھی اب تو یہ لگتا ہیں نہیں
ایک بس شور ہے لفظوں کا وفا بھی اپنی
سچ تو یہ ہے تجھے دل  سے کبھی چاہا ہی نہیں
ہم کو عادت ہے محبّت میں پڑے رہنے کی
ہجر کے درد کے بن اپنا گزارا ہی نہیں
تیری فرقت ہی مداوا ہے دلِ وحشی کا
وصل کی قید تو ظالم کو گوارا ہی نہیں
بے نیازی ہے خماری ہے کہ مایوسی ہے
اب کسی شے کا طبیعت کو تقاضا ہی نہیں
کوئی تمہید تعارف نہ خلاصہ اس کا
عمر کا کھیل کسی شخص نے سمجھا ہی نہیں

No comments:

Post a Comment