زبدگی تیری مسافت کا بھروسہ ہی نہیں
کوئی منزل کوئی چوکھٹ کوئی رستہ ہیں نہیں
خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح
ہم بھی عاشق تھے کبھی اب تو یہ لگتا ہیں نہیں
ایک بس شور ہے لفظوں کا وفا بھی اپنی
سچ تو یہ ہے تجھے دل سے کبھی چاہا ہی نہیں
ہم کو عادت ہے محبّت میں پڑے رہنے کی
ہجر کے درد کے بن اپنا گزارا ہی نہیں
تیری فرقت ہی مداوا ہے دلِ وحشی کا
وصل کی قید تو ظالم کو گوارا ہی نہیں
بے نیازی ہے خماری ہے کہ مایوسی ہے
اب کسی شے کا طبیعت کو تقاضا ہی نہیں
کوئی تمہید تعارف نہ خلاصہ اس کا
عمر کا کھیل کسی شخص نے سمجھا ہی نہیں
کوئی منزل کوئی چوکھٹ کوئی رستہ ہیں نہیں
خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح
ہم بھی عاشق تھے کبھی اب تو یہ لگتا ہیں نہیں
ایک بس شور ہے لفظوں کا وفا بھی اپنی
سچ تو یہ ہے تجھے دل سے کبھی چاہا ہی نہیں
ہم کو عادت ہے محبّت میں پڑے رہنے کی
ہجر کے درد کے بن اپنا گزارا ہی نہیں
تیری فرقت ہی مداوا ہے دلِ وحشی کا
وصل کی قید تو ظالم کو گوارا ہی نہیں
بے نیازی ہے خماری ہے کہ مایوسی ہے
اب کسی شے کا طبیعت کو تقاضا ہی نہیں
کوئی تمہید تعارف نہ خلاصہ اس کا
عمر کا کھیل کسی شخص نے سمجھا ہی نہیں
No comments:
Post a Comment