Wednesday, December 10, 2014

یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں

آنکھ کا رعب وہی قتل کا انداز وہی
ہم سے بدلے ہیں بہت آپ ذرا بدلے نہیں
نرم آواز وہی دائرہ سے ہونٹ وہی
یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں


یہ زمانہ گو ترا نام تلک بھول چکا
ایک شخص آج بھی سمجھے ہے زمانہ تجھ کو

آس پاس اس کے جو رہتے ہیں سبھی اندھے
کیسے ممکن ہے اسے دیکھ کے بھی عشق نہ ہو


کس قدر سستا و ارزاں ہے زمانے کے لیے
ہائے وہ شخص جسے یاد بھی صرفے سے کروں


میری آنکھوں سے کبھی خود کو اگر دیکھ لے وہ
قسم لے لیجیے آئینہ تلک توڑدے وہ
!اتنا نایاب ہے کم یاب ہے وہ حسن کہ بس
 آنکھ  جھپکائیے !!!  کہتا ہے نظر باندھ کے وہ




No comments:

Post a Comment