Tuesday, March 16, 2010

کلائی کی گھڑی

کلائی کی گھڑی

خرم زانو پہ سر رکھے چپ چاپ دیکھ رہا تھا- ٹپ ٹپ کرتے بارش کے قطرے - ---- وہ جس سرائے میں ٹھہرا ہو تھا اس کی چھت میں شگاف تھا اور بارش کا پانی فر ش کو گیلا کر رہا تھا، جب کہ خرم ایک کونے میں تھوڑی سی مر تفع جگہ پر بیٹھا تھا، اس کو معلو م تھا ٹپکنے والا پانی اس کے پاس پہنچنے سے پہلے باہر چلا جائے گا – اس لیئے وہ قطعی طور پر بے نیاز بیٹھا ہوا تھا،نہ اسے بارش سے شکایت تھی، نہ سرائے کے درو دیوار اور چھت سے غرض تھی- کیونکہ وو صرف وقت گزار رہا تھا ، اس نے سیالکوٹ جانا تھا لیکن وہ کراچی کی ریل گاڑی پر بیٹھ گیا تھا اور بیٹھتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی، جب اس کو جاگ آئی تو گاڑی صوبہ سندھ میں داخل ہو چکی تھی، وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ریل بابو کو ٹرین روکنے کا کہا، ریل بابو نے اسے ایک ویران سے سٹیشن پر اتار دیا جہاں کوئی چرند پرند نظر نہیں آرہا تھا، اتنے میں بارش ہونے لگی اور وہ سرائے کے اندر آ کر پنجاب جانے والی گاڑی کا انتظار کرنے لگا، خرم کی نظر اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ تھی جو معمول سے کیہں زیادہ سست روی سے چل رہی تھی
----------------------------------------------------------------------------

ائر کنڈیشنڈ کمرے میں لیٹی ہوئی نجمہ آج پھر اپنے آپ کو دنیا کی بدنصیب ترین عورت سمجھ رہی تھی، اس کو غصہ آ رہا تھا زندگی پر اور زندگی سے وابستہ ہر چیز پر جو اس کے حلقہِ نظر میں تھی، وہ آج پھر خود کشی کی کوشش کر چکی تھی اور اس کوشش میں ناکام ہونے کے بعد وہ شیشے کے تین گلاس ، ایک جگ، ایک موبائل فون اور اپنے شوہر ارسلان کی عینک توڑ چکی تھی جب اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس نے اٹھ کر ارسلان کا بٹوا الماری سے نکالااور اس میں پڑی ہوئی ساری نقدی کو ریزہ ریزہ کر کے فرش پر بکھیر دیا، اس کے بعد اس نے ایٹی وان کی دو گولیاں نگلیں اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی، وہ مسلسل رو رہی تھی اور اس کے رونے کی سسکیوں کی آواز نےپورے کمرے کے ماحول کو ایسے سوگوار کیا ہوا تھا جیسے زندگی ایسی غار میں چلی گئی ہے جہاں پر نہ روشنی ہے اور نہ ہی واپسی کا کوئی راستہ- ارسلان صوفے پربیٹھا نجمہ کی انکھوں سے بہتے ہوئے آنسوئوں کے دھارے کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ کوئی نمکین پانی کا چشمہ ہو جس کو نہ تو بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کا رخ بنجر زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے- نجمہ سے شادی ارسلان نے اپنی مرضی سے کی تھی، اگرچہ اس میں ارسلان کی اپنی پسند شامل نہیں تھی- ارسلان کا یہ فیصلہ اس کے اس مفروضے کے مرہونِ منت تھا کہ اس کی کوششوں سے کسی کی یاسیت اور اداسی ابدی خوشی میں بدل سکتی ہے، نجمہ کو مرگی کے دورے پڑتے تھے اور آدھے سر کا درد رہتا تھا، وہ اکثر و بیشتر نیند کی گولیاں کھا کر خود کو قریب المرگ کر لیتی تھی - ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ گھریلو تنائو ہے- نجمہ اس کا الزام اپنے والد کے سر تھوپتی تھی او ر ہر وقت اس کے ظلم و ستم کے ْرونے روتی تھی- وہ ارسلان سے عشق کرتی تھی اور بظاہر اس کی خود کشیوں کی وجہ ارسلان سے ناقابلِ برداشت دوری تھی،- نجمہ کا تکیہ کلام تھا کہ اگر اس کو ارسلان کا قرب ، نام، اور عزت کی چھت مل جائےتو وہ ساری عمر ارسلان کی داسی بن کر گزار سکتی ہے-آج کی لڑائی کی وجہ ارسلان کا دوست خرم تھا جو سیالکوٹ آرہا تھا اور اس کوناشتہ کروانے کے بعد ارسلان نے اسے ائر پورٹ پر چھوڑنے جانا تھا-اور یہ اتنی سی بات نجمہ کو پسند نہیں تھی-اول اول تو ارسلان نے نجمہ کےہر درد کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن پھر اس کو احساس ہو گیا کہ دنیاوی متاع و زر سے حقیقی خوشی اور قلبی سکون نہیں خریدا جا سکتا-اس نے آج ہی سنڈے میگزین سے ایک حدیث پاک پڑھی تھی جس کا مفہوم تھا کہ کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے لیکن آدمی کی سرشت نہیں بدل سکتی- نجمہ ایک بے چین روح تھی جس کے لہو کی بوند بوند میں حسد ، لالچ اور اضطراب کی آمیزش تھی- ارسلان کو اب نہ تو نجمہ کے آنسوئوں اور سسکیوں سے غرض تھی اور نہ ہی اس کی ناراضگی کا خیال- اسے پتہ تھا کہ وہ غلط گاڑی پر سوار ہے جس کی کوئی منزل نہیں- ابھی کچھ دیر میں نجمہ روتی روتی سو جائیگی اور صبح پھر کسی نئی بات پر جھگڑا ہو گا- اگرچہ خرم سے ملے ایک سال بیت گیا تھا اور خرم اس کا یارِغار تھا، پھر بھی ارسلان دعا مانگ رہا تھا کہ کاش خرم کل سیالکوٹ نہ آئے- ارسلان کی نظر اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ تھی جو معمول سے کیہں زیادہ سست روی سے چل رہی تھی

No comments:

Post a Comment