Monday, March 29, 2010

بن بلائے آنے والا

بن بلائے آنے والا
کتنا زعم رکھتا ہے
جیسے اس کی آمد کا
انتظار ہوتا ہو
جیسے بے قراری میں
انگلیوں کی پوروں پر
بار بار پل پل ہر دن شمار ہوتا ہو
میں خموش بیٹھا ہوں
اور مجھ میں بیٹھا ہے
نفرتوں کا موسم بھی
مجھ کو ضبط کرنے دو
مجھ کو چپ ہی رہنے دو
کہ -----
میں نے جِیب کے اوپر
ایک انگارہ رکھا ہے
جو بھڑکتا رہتا ہے
بن بلائے آنے والا
جھوٹا زعم رکھتا ہے
اس کا زعم رہنے دو

No comments:

Post a Comment