Monday, March 8, 2010

خموشی محبت کی زباں ہو جائے

اے محبت
ترے ہونٹوں کے ُپھولوں کے
خوشبوئو ں کے رنگوں کے
رخسار پہ اگتی صبحوں کے
آنکھوں میں ڈوبتی شاموں کے
زلفوں میں چھپتے جگنئوں کے
باتوں میں مچلتی تتلیوں کے
بہت سے گیت گائے
اے محبت
تیرے ہونٹوں
تیری آنکھوں
تیرے ماتھے میں
تیرے معصوم سے حسین چہرے کے خاکے میں
مہکتے ہوئے لفظوں سے دھنک کے رنگ سجائے
مگر اے جانِ حسن!
تیرے حسن کا سفر ہے کہ ختم ہوتا نہیں
اور عشق یہ جاگا ہے کہ اب سوتا نہیں
تیرے ہونٹوں کے اشارے
تیری آنکھوں کی زباں
رخِ کاغذ پہ اتاروں تو بھلا کیسے
عشق کے جذبے ، آہیں ، سازِ دل کے شرارے
لفظوں میں اتاروں تو بھلا کیسے
میری نظمیں۔ میری غزلیں ، میرے لفظوں کا پندار
جہاں کی ساری تشبیہیں کائنات کا ہر استعارہ
تری روشنی سے ماند سا پڑ گیا ہے
ایک تکرار سی تکرار ہے کہ قلم اڑ گیا ہے
اب تو یہی آرزو ہے کہ اک روز
یوں بارشِ حسن میں نکھر کے آئے چہرہ ترا
کہ یک دم جو کھلیں آنکھیں میری تو پتھر ہو جائیں
ہونٹ یوں دفعتا بند ہوں کہ مقفل ہو جائیں
سفید کاغذ پہ آ کر قلم ساکت ہو جائے
چار آنکھوں کے بیچ وقت جامد ہو جائے
خموشی بولتی ہو، خموشی لکھتی ہو
خموشی باتیں کرتی ہو،
گویائی ہاتھ باندھے کھڑی ہو
خموشی محبت کی زباں ہو جائے

No comments:

Post a Comment