Wednesday, March 10, 2010

مرا ہمسفر یہیں تھک گیا ، ابھی مجھ کو چلنا ہے دیر تک

مرا ہمسفر یہیں تھک گیا ، ابھی مجھ کو چلنا ہے دیر تک
شروعات ہے ابھی رات کی، یہ چراغ جلنا ہے دیر تک

کہیں دھوپ ہے، کہیں دھول ہے، کئی درد ہیں کئی وحشتیں
میں محبتوں کے سفر میں تھا، یہ غبار اڑنا ہے دیر تک

کئی آسروں کو بدل بدل، تجھے کھینچ لایا ہوں زندگی
مرا جسم مر بھی چکا مگر ، ابھی دل دھڑکنا ہے دیر تک

کوئی ہاتھ ہو جیسے پھول ہو، کوئی ساتھ ہو جیسے آپ ہو
میں سفر میں عمر گزار دوں، کہ سفر مہکنا ہے دیر تک

وہ اداس آنکھ گلاب کی، جو الجھتی رہتی تھی خواب سے
وہ گئی تو نیند بھی لے گئی، مجھے چاند تکنا ہے دیر تک

No comments:

Post a Comment