Friday, March 12, 2010

تجھے بہت بھولنا چاہا جاناں

تجھے بہت بھولنا چاہا جاناں
تجھے بہت بھولنا چاہا
جب بھی یاد آئی تیری
یہی سوچ کے چپ ہو لیئے
چلو آخری بار ہے
دل کی کشتِ ویراں کو سیراب کر لیں
خوابوں کی نگری آباد کر لیں
جی بھر کے یاد کر لیں
چلو آخری بار ہے
گریز پا لمحوں کو لفظوں میں جکڑ لیں
تخیل میں کھیلتے
تری سیہ آنکھوں کے
جگنو پکڑ لیں
جب بھی قدم بڑھے میرے
تیرے ہی شہر کی جانب بڑھے
مگر بڑھتے ہوئے قدموں پہ زنجیر سی ڈالےرکھی
بھول جائیں گے تجھے بھول جائیں گے، یہی آس پالے رکھی
وقت کے سمندر میں میں یہہی کشمکش رہی،
کبھی تیری یاد کا جزیرہ، کبھی زندگی کی پتوار کا سہارا
نہ جزیرے پہ ٹھہر سکے
نہ پتوار چلا سکے
نہ مزل کو پاس بلا سکے
نہ خود ساحل پہ جا سکے
 نہ کسی اور کو اپنا سکے
نہ تجھی کو بلا سکے
تجھے ًبھلاتے بھلاتے خود کو بھلا دیا
سب کچھ مٹا دیا
تیری یاد نہ مٹا سکے
تجھے نہ ہم بھلا سکے
ہاں تجھے نہ ہم بھلا سکے

No comments:

Post a Comment