Thursday, March 18, 2010

وہ انتظار اب نہیں جاناں

محبت کی پہلی ساعتِ دیدار سے ہی
انتظار کی شہر فصیلوں میں آگئے
جہاں باہر کی جانب
کوئی رستہ نہیں جاتا
کوئی دروازہ نہیں کھلتا
پھر ادائے انتظار ایسی
خوش فہمیوں کے جال میں آگئے
کہ محبتوں کے سبھی ذاِئقے
قربتوں کے تمام لمس
چاہتوں کے سبھی بوسے
دبے پائوں آئیں گے
کسی روز ہوا کی طرح
میری آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
سرگوشی کریں گے
کانوں میں صبا کی طرح
مگر محورِ ذات کے گرد
سال جلتے رہے
جل جل گرتے رہے، کسی کرمکِ یاس کی طرح
ہر سال میں چار موسم
ہر موسم کے کتنے دن
سورج چڑھتے رہے
ڈھلتے رہے۔
دور کیا جانا
آئینوں سے پوچھ لو
چاند چہرے بھی روپ بدلتے رہے لباس کی طرح
تم نے کہا
محبت چھائوں ہے جاناں
مگر چھائوں کا تو
دھوپ سے مقابلہ ٹھہرا
موسموں سے واسطہ ٹھہرا
طویل ہوتے ہیں کبھی سائے کبھی چھوٹے ہوتے ہیں
خالی ہوتے ہیں کبھی پیڑ کبھی گھنے ہوتے ہیں
پھر ہم ہی کیوں استادہ رہیں
پنکھڑی پنکھڑی محبتوں کے
گریزاں پھول لیئے
بے کار جھگڑتے رہیں ہوائوں سے شامو سحر
لو آج ہم بھی کہتے ہیں
محبت چھائوں ہے جاناں
مگر جہاں چھائوں ہے وہیں اپنا گھائوں ہے جاناں
کسی پیڑ کے نیچے دو گھڑی جو سو لیے
تو کسی اور پیڑ کی جانب چل پڑے
کسی اور پیڑ کے دو گھڑی جو ہو لئے
تو کسی اور پیڑ کی جانب چل پڑے
سچ کہیں----
وہ پہلا پیار اب نہیں جاناں
وہ انتظار اب نہیں جاناں

No comments:

Post a Comment