Wednesday, March 17, 2010

بات بے بات پہ کرتے ہیں شکایت جاناں

بات بے بات پہ کرتے ہیں شکایت جاناں
بعض لوگوں کی تو ہوتی ہے یہ عادت جاناں

میرے شکوے میں ذرا دم ہے ذرا غور سے سن
مجھ کو درکار ہے تھوڑی سی محبت جاناں

ہم کہ دکھ درد میں ہنس کھیل لیا کرتے تھے
ہم اگر چپ ہیں تو ٹوٹی ہے قیامت جاناں

کتنا شکی ہے مزاجا مرا ہمدم دیکھو
میرے خوابوں کی بھی کرتا ہے حفاظت جاناں

پھر کوئی زلف ہو جس میں، میں چھپا لوں چہرہ
پھر کہیں مل جائے رخسار کی جنت جاناں

غمِ دنیا کا صلہ بھی غمِ دنیا ٹھہرا
لذتِ ہجر ہے نہ وصل کی حدت جاناں

No comments:

Post a Comment