بات بے بات پہ کرتے ہیں شکایت جاناں
بعض لوگوں کی تو ہوتی ہے یہ عادت جاناں
میرے شکوے میں ذرا دم ہے ذرا غور سے سن
مجھ کو درکار ہے تھوڑی سی محبت جاناں
ہم کہ دکھ درد میں ہنس کھیل لیا کرتے تھے
ہم اگر چپ ہیں تو ٹوٹی ہے قیامت جاناں
کتنا شکی ہے مزاجا مرا ہمدم دیکھو
میرے خوابوں کی بھی کرتا ہے حفاظت جاناں
پھر کوئی زلف ہو جس میں، میں چھپا لوں چہرہ
پھر کہیں مل جائے رخسار کی جنت جاناں
غمِ دنیا کا صلہ بھی غمِ دنیا ٹھہرا
لذتِ ہجر ہے نہ وصل کی حدت جاناں
No comments:
Post a Comment