Monday, March 22, 2010

کبھی لو بلند تھی چراغ کی، کبھی رات پر بھی شباب تھا

کبھی لو بلند تھی چراغ کی، کبھی رات پر بھی شباب تھا
کبھی بٹ رہی تھی یوں بے طلب نہ سوال تھا نہ حساب تھا

تری زلف الجھی تھی پائوں سے ترا بچ نکلنا محال تھا
تری سوچ میں مرا نام تھا، تری نیند میں مرا خواب تھا

جو بکھر گیا ہے برگ برگ ، مری بے بسی کے مزار پر
کبھی خوشبوئوں سی دعائوں سے ، مجھے مانگتا وہ گلاب تھا

یہ گئے دنوں کا ہے سانحہ ، کبھی تنہا بیٹھ کے سوچنا
ابھی خواب دیتے تھے تھپکیاں ابھی چڑھتا چڑھتا شباب تھا

تجھے ضابطوں کی سزا ملی مجھے منزلوں کی خبر نہ تھی
تو کھڑا رہا مرا منتظر، مرے راستوں میں چناب تھا

میں نے پھول توڑا تھا ایک ہی وہی پھول نکلا ہے کاغذی
مجھے کہکشاں کا گمان تھا، وہ غبار ِ ریگِ سراب تھا

No comments:

Post a Comment