Monday, July 21, 2014

ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا

قسطوں قسطوں میں ہی جی زندگی جتنی جی ہے
نقد کی پونجی نہ تھی سانس ادھاری لی ہے
کارِ بے کار کی تکرار میں دن خرچ ہوئے
اور ہر رات کوئی موت سی نیند آئی ہے
پیٹ کی چاکری اور جبرِ بقا کے آگے 
سر اٹھا یا نہ کبھی کوئی رعایت لی ہے
ہم سے مت لیجیے بیتے ہوئے سالوں کا حساب
ہم نے یہ عمر گزاری نہیں ضائع کیا ہے
ہم وہ خود کار کھلونے ہیں جنہیں مالک نے

ذوق تفریح کی تسکین کو چابی دی ہے

----------------

بدن کی صحت بتاتی ہے آرزو کا سراغ
تو جانتی ہے کہ روحیں تو مردہ ہوتی ہیں 

!!!تیرے شباب کی خیر اور بانکپن کی خیر
-----------------------


عیش وعشرت میں دن گزرتے ہیں
اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے
دو بغل میں اور ایک سینے پر
کیف و مست کی نیند سوتا ہوں
---------------------


سب کا پیغام محبت ہے مگر حیرت ہے
ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا
خود کو محبوب خدا کہتی ہے جو قوم اسے نے
رب کے کس حکم کی تعمیل میں یہ ظلم کیا
عورتوں بوڑھوں کو معذوروں کو مفلوجوں کو
بے گنہ قتل کیا پھول سے معصوموں کو


جس کی بنیادوں میں معصوموں کا ناحق خوں ہو
ایسی دیوار مقدس کہاں رہتی ہے بھلا
شیر خواروں کے لہو سے وہ سنے ہوئے ہاتھ
خود کو جب غازی کہں سوچتا تو ہوگا خدا






No comments:

Post a Comment