بہت ہی دھندلا سا اک نقش ہوں سرِ ساحل
پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر
وہ کیسی عمر تھی پل پل کو پر کھا کرتے تھے
یہ کیسی عمر ہے سالوں کا بھی حساب نہیں
پھر اپنے آپ میں لوٹو گے قسمتوں کے طفیل
کسی کی آنکھوں میں دیکھو تو ہوش مت کھونا
اب اپنے آپ میں تھوڑا سا بچ گیا ہوں بس!
میں اگلی نسل میں خود کو انڈیلتا جاوں
Sunday, April 5, 2015
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment