پکا کے خواب کوئی پھر بہل رہا ہے دل
کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل
نہ کوئی آس نہ سپنا نہ کوئی اپنا ہے
بس ایک درد کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دل
صبح سے آنکھ کی کھڑکی سے اٹھ رہا ہے دھواں
نہ جانے کس کے تصور میں جل رہا دل
بکھر گیا وہ گلاب اور رت بدل بھی گئی
ابھی بھی خوشبو کے دھوکے میں چل رہا ہے دل
میں جم چکا ہوں زمانے کی سرد راہوں پر
تری چھوَن کے خیالوں میں جل رہا ہے دل
کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل
نہ کوئی آس نہ سپنا نہ کوئی اپنا ہے
بس ایک درد کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دل
صبح سے آنکھ کی کھڑکی سے اٹھ رہا ہے دھواں
نہ جانے کس کے تصور میں جل رہا دل
بکھر گیا وہ گلاب اور رت بدل بھی گئی
ابھی بھی خوشبو کے دھوکے میں چل رہا ہے دل
میں جم چکا ہوں زمانے کی سرد راہوں پر
تری چھوَن کے خیالوں میں جل رہا ہے دل
No comments:
Post a Comment