Friday, May 28, 2010

کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

پکا کے خواب کوئی پھر بہل رہا ہے دل
کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

نہ کوئی آس نہ سپنا نہ کوئی اپنا ہے
بس ایک درد کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دل

صبح سے آنکھ کی کھڑکی سے اٹھ رہا ہے دھواں
نہ جانے کس کے تصور میں جل رہا دل

بکھر گیا وہ گلاب اور رت بدل بھی گئی
ابھی بھی خوشبو کے دھوکے میں چل رہا ہے دل

میں جم چکا ہوں  زمانے کی سرد راہوں پر
تری چھوَن کے خیالوں میں جل رہا ہے دل

No comments:

Post a Comment