Monday, May 10, 2010

روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

شکوہ جات لکھتا ہوں ، بے حساب لکھتا ہوں
روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

ضبط کی کہانی ہے ، ہا ئے کیا جوانی ہے
اس لیے سمندر کو ، میں سراب لکھتا ہوں

آگئی میناروں پر ، اب تو گھر گھر اترے گی
آج کل محبت کو ، آفتاب لکھتا ہوں

لمس بڑھتا آتا ہے ، پھول کی طرف دیکھو
خوشبوئیں نشے میں ہیں ، میں عذاب لکھتا ہوں

روز  میری آنکھوں میں ، میری نیند روتی ہے
روز اس کے ماتھے پہ ، ایک خواب لکھتا ہوں

No comments:

Post a Comment