Sunday, May 30, 2010

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے
دیکھنا جس کا نہ دیکھا جائے

آنکھ ملتے ہی بکھر جاتا ہے
بات سے کیسے سمیٹا جائے

سب ستم بھول کے جو ملتا ہے
کیسے وہ شخص بھلایا جائے

ہم ہوئےغیر مگر اس کی تو
یہی ضد ہے اسے چاہا جائے

مسکرائے تو مری سانس رکے
حسن کیسے یہ سنبھالا جائے

No comments:

Post a Comment