Sunday, May 30, 2010

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں
تن بدن پھول کھلے آج مہکتا ہوں میں

تیری باتیں ہیں کہ ساون کی پھسلتی بوندیں
یوں بھگوتی ہیں کہ پتوں سا ٹپکتا ہوں میں

مسکراو  تو مجھے ریت سا کر دیتے ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی پھر آپ سرکتا ہوں میں

میری پلکوں سے تجھے باندھا ہے رب نے شاید
جس طرف دیکھوں تجھے سامنے پاتا ہوں میں

آنکھ ملتے ہی وہ آنچل سے الجھ جاتا ہے
اس لیے جان کے آنکھوں کو جھپکتا ہوں میں

وقت بدلا ہے مگر وہ نہیں بدلا ریحان
جب بھی ملتا ہے وہ ماضی میں پلٹتا ہوں میں

No comments:

Post a Comment