تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں
تن بدن پھول کھلے آج مہکتا ہوں میں
تیری باتیں ہیں کہ ساون کی پھسلتی بوندیں
یوں بھگوتی ہیں کہ پتوں سا ٹپکتا ہوں میں
مسکراو تو مجھے ریت سا کر دیتے ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی پھر آپ سرکتا ہوں میں
میری پلکوں سے تجھے باندھا ہے رب نے شاید
جس طرف دیکھوں تجھے سامنے پاتا ہوں میں
آنکھ ملتے ہی وہ آنچل سے الجھ جاتا ہے
اس لیے جان کے آنکھوں کو جھپکتا ہوں میں
وقت بدلا ہے مگر وہ نہیں بدلا ریحان
جب بھی ملتا ہے وہ ماضی میں پلٹتا ہوں میں
تن بدن پھول کھلے آج مہکتا ہوں میں
تیری باتیں ہیں کہ ساون کی پھسلتی بوندیں
یوں بھگوتی ہیں کہ پتوں سا ٹپکتا ہوں میں
مسکراو تو مجھے ریت سا کر دیتے ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی پھر آپ سرکتا ہوں میں
میری پلکوں سے تجھے باندھا ہے رب نے شاید
جس طرف دیکھوں تجھے سامنے پاتا ہوں میں
آنکھ ملتے ہی وہ آنچل سے الجھ جاتا ہے
اس لیے جان کے آنکھوں کو جھپکتا ہوں میں
وقت بدلا ہے مگر وہ نہیں بدلا ریحان
جب بھی ملتا ہے وہ ماضی میں پلٹتا ہوں میں
No comments:
Post a Comment