ساحلِ سمندر پر نقش سے بناتے ہو
اور پھر مقدر سے ضد بھی تم لگاتے ہو
زندگی کے سب رستے
طے ہوئے ہیں پہلے سے
جس طرف بھی لے جائیں
تم نے چلتے جانا ہے
خوابوں اور خیالوں کو نیند میں ہی رہنے دو
کیوں انہیں جگاتے ہو
اور جی جلاتے ہو
خواہشوں کی سننے سے
تلخیاں حوادث کی
اور بڑھ تو سکتی ہیں
کبھی کم نہیں ہوتیں
No comments:
Post a Comment