Friday, December 24, 2010

سب کاغذی طوطے ہیں

کیوں مغز کھپاتے ہو
کیوں وقت گنواتے ہو
یہ دنیا نہ سمجھے گی
یہ لوگ نہ مانیں گے
انسان کی شکلوں میں
پتلی کے تماشے ہیں
یہ ٹین کے بندر ہیں
یہ کاٹھ کے گھوڑے ہیں
اور شور جو کرتے ہیں
سب کاغذی طوطے ہیں
اقدا ر و روایت پر
لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں
پڑھ پڑھ کے کتابوں سے
یہ فیصلے کرتے ہیں
جو دل پہ لکھی رب نے
اس بات کو کیا جانیں
یہ جسموں کے قیدی ہیں
جذبات کو کیا جانیں
الفاظ کے کوزہ گر
احساس کو کیا جانیں
آنکھوں کی چمک دیکھیں
لہجے کی کھنک دیکھیں
جو سینے کے اندر ہیں
اس آگ کو کیا جانیں
ہنستے ہوئے چہروں کے
دن رات کو کیا جانیں
کیوں مغز کھپاتے ہو
کیوں وقت گنواتے ہو

No comments:

Post a Comment