روشنی محبت کی
آنکھ کے دریچوں میں
آفتاب جیسی ہے
آفتاب جیسی ہے
جس طرف بھی کھلتے ہیں
صبح ہونے لگتی ہے
قد کا بانکپن دیکھو
جب بھی اٹھنے لگتا ہوں
آسماں کو چھوتا ہوں
بازووں کے حلقوں میں
کہکشائیں چھپتی ہیں
سوچنے کی عادت ہے
سوچتے ہی گزری ہے
بادلوں کے ٹکڑوں پر
تیرے خواب لکھتا ہوں
بے حساب لکھتا ہوں
لوٹ کو ستاروں کو
شب کی کالی چادر پر
روشنی کے دھاگوں سا
تیرا نام لکھتا ہوں
صبح شام لکھتا ہوں
لیکن اس زمانے نے
پائٔوں میرے جکڑے ہیں
ضبط کی زمینوں میں
No comments:
Post a Comment