Tuesday, August 31, 2010

لیکن اس زمانے نے

روشنی محبت کی
آنکھ کے دریچوں میں
آفتاب جیسی ہے
جس طرف بھی کھلتے ہیں
صبح ہونے لگتی ہے
قد کا بانکپن دیکھو
جب بھی اٹھنے لگتا ہوں
آسماں کو چھوتا ہوں
بازووں کے حلقوں میں
کہکشائیں چھپتی ہیں
سوچنے کی عادت ہے
سوچتے ہی گزری ہے
بادلوں کے ٹکڑوں پر
تیرے خواب لکھتا ہوں
بے حساب لکھتا ہوں
لوٹ کو ستاروں کو
شب کی کالی چادر پر
روشنی کے دھاگوں سا
تیرا نام لکھتا ہوں
صبح شام لکھتا ہوں
لیکن اس زمانے نے
پائٔوں میرے جکڑے ہیں
ضبط کی زمینوں میں

No comments:

Post a Comment