Saturday, April 17, 2010

بخش دو مجھ کو وجود اپنا

بخش دو مجھ کو وجود اپنا



بخش دو مجھ کو وجود اپنا کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

یہ بکھرے گیسو ، یہ جاگی آنکھیں ، یہ ہنستے آنسو ، یہ روتی سانسیں

اور بے قراری کی دھول تھامے

 یہ تیرے پیروں سے لپٹی راہیں

بدن میں کھلتے گلاب چاہ کے

ہجر کی گرمی میں جل رہے ہیں

بھولی آشا کے ننھے جگنو ، اندوہِ حسرت میں پل رہے ہیں

کھل رہی ہیں بقا کی گرہیں دل کہیں ہے تو جاں کہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

بدن کا تیرے میں خلیہ خلیہ

 کچھ ایسے چوموں گلاب کر دوں

کٹورے ہونٹوں سے پی کے شبنم

رگوں میں تیری شراب بھر دوں

تیری آنکھوں میں جھانک لوں جو

چاند تاروں سے خواب کر دوں

یہ آب زم زم سی باتیں تیری

سنوں تو رشکِ ثواب کر دوں

آئو کہ پہلو میں آ کے بیٹھو، تمہاری جنت و جاں یہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

No comments:

Post a Comment