Friday, April 2, 2010

شکوہ

شکوہ

چھوٹا سا شکوہ ہے
پاگل سی شکایت ہے
اے مری جان ِ ادا
ہلکی سی گزارش
آئیندہ جب بھی
خود کو دیکھو
تو اپنی آنکھوں سے مت دیکھو
دنیا والوں سے مت پوچھو
جھوٹے ہیں جہاں کے آئینے
اندھے ہیں لوگ سارے
انہیں کیا پتہ
انہیں کیا خبر
جب بنائی گئی ہوں گی
ساحر سی آنکھیں تیری
تو مصور نے قلم توڑ دیا ہو گا
جب تراشے گئے ہوں گے
نازک سے ہونٹ تیرے
تو کلیوں نے کھلنا چھوڑ دیا ہو گا
جب سجائی گئی ہو گی
چاہِ زقن سی تیری ٹھوڑی
کتنے سوئے ہوئے بوسوں نے
انگڑائی لی ہو گی
زلفوں کی کالی رات پہ
روشن سی پیشانی تیری
جب چاند بن کے اتری ہو گی
آسمان کے چاند پہ تب داغ لگا ہو گا
آب زم زم سے دھلے
گل و گلزار سے رخسار تیرے
جب بے نقاب ہوئے ہوں گے
تو ہر دیکھنے والی آنکھ میں
عبادت کا نشہ ہو گا
تیرے مہکیلے بدن سے
چھو جانے کی خواہش میں
ہوائوں نے اٹھکیلیوں کے ہنر سیکھے ہوں گے
شاید کہ جڑ جائیں تیرے زیور میں کہیں
یہی سوچ کر آسمان کے ستارے ٹوٹتے ہوں گے
یہ جو موسم نے ساون کی ادا سیکھی ہے
کوئی آنسو تری آنکھ سے کبھی ٹپکا ہو گا
ترے پہلو میں دبی بیٹھی ہیں
زمانے بھر کی خوشیاں
بے خیالی میں تو نے آنچل کہیں کھولا ہو گا
نہیں جاناں ---- نہیں جاناں----
نہیں تیرا بدل جاناں
بدل ہوتا جو کوئی تیرا
تجھے کب کا بھلا دیتا
ہاں جاناں ----- ہاں جاناں----
بہت انموں ہے تو جاناں
مول ہوتا جو کوئی تیرا
تجھے جگ سے خرید لیتا
چھوٹا سا شکوہ ہے
پاگل سی شکایت ہے
اے مری جان ِ ادا
ہلکی سی گزارش
آئیندہ جب بھی
خود کو دیکھو
میری آنکھوں میں جھانکو
میری آنکھوں سے دیکھو

No comments:

Post a Comment