افسوس تو ہوتا ہے
دور دور تک پھیلے
خواب کے سراب کے
ریت بھرے صحرا میں
اک جوگی چل رہا تھا
پھٹی ہوئی جیبوں میں
چند سکے تھے کھوٹے سے
جو رستے کی پونجی تھے
اس رستے کی پونجی سے
تھوڑی نیاز خریدی تھی
چند گلاب توڑے تھے
اس کو مندر جانا تھا
---
دھول اڑ رہی تھی
جہاں تک دیکھتا تھا – دھول اڑرہی تھی
ہونٹوں کی پپڑیوں پہ
آنکھوں کی پتلیوں پہ
سر کے بالوں میں
پائوں کے چھالوں میں
جسم کی پور پور سے
خون رس رہا تھا
مگر وہ جوگی کمالِ فن سے
سچے جذبوں کا ہاتھ تھا مے
جھگڑ رہا تھا دھوپ سے
لڑ رہا تھا بھوک سے
پیاس بانٹتے سورج کا
منہ چڑا رہا تھا
چلا جا رہا تھا
کہ حوصلہ بڑا تھا اک خواب جیسے بت کا
جس کے انتظار میں
سجدے تڑپ رہے تھے
جس کی شمعِ یاد سے
اندھیرے سمٹ رہے تھے
گلے میں ڈالی مالائیں
جسے عقیدت سے جپ رہی تھیں
صدا میں اٹکی گم دٰعائیں
جس کی طلب میں تھک چکیں تھیں
مگر وہ جوگی چل رہا تھا
کہ بندگی کا خمار بڑا تھا
-----
عمر بھر کی مسافت پہ
جب وہ جوگی مندر پہنچا
تو دامن دریدہ حالت پہ
بدن دریدہ صورت پہ
مندر میں بیٹھے تمام بتوں نے
بڑے ہی زور کا قہقہہ لگایا
اور پھر یکبار برسے
حقارت کے ، دشنام کے پتھر
تہمت کے ، الزام کے پتھر
ٹھکرانے کے آلام کے پتھر
جرم یہ تھا جوگی کا
کہ اس کی پیشانی نے
اک بت کو قدموں کو
سجدوں کی خواہش میں
جوشِ عقیدت سے
خون آلود کیا تھا!!!!
----
وہ جوگی خوں کے چھینٹوں کو
اشکوں سے دھو بھی ڈالے گا
الٹی پڑی نیاز کو
بکھرے ہوئے گلابوں کو
گٹھڑی میں باندھ لائے گا
واپس لوٹ بھی آئے گا
مگر بتو ، تمہی کہو
یوں لوٹ کے آنے میں
افسوس تو ہوتا ہے!!
No comments:
Post a Comment