اک کم ظرف کے ساتھ گزارا ہے آج کل
ہم نے تو عمر سے ہی نکالا ہے آج کل
سایہ بری نگاہ کا لگتا ہے چاند پر
یوں بے سبب جو روٹھتا رہتا ہے آج کل
دل کو غمِ فراق کی عادت ہے اس قدر
پا کر تجھے حالات سے ڈرتا ہے آج کل
اس سے قبل کہ ٹوٹ سکیں خواب بیچ دو
شیشے کے مال کا کیا بھروسہ ہے آج کل
بیٹھیں تو سوچیں گھیر لیں ، سوچیں تو حیرتیں
محفل سجانے والا ہی تنہا ہے آج کل
ضدی پہاڑ پر کبھی اگتی ہے گھاس کیا
تم نے تو خوں چھڑک کے بھی دیکھا ہے آج کل
آنکھوں کی کور میں کوئی رستی نمی سی ہے
لہجہ ہمارا اس لیے شستہ ہے آج کل
No comments:
Post a Comment