Wednesday, April 14, 2010

اک کم ظرف کے ساتھ گزارا ہے آج کل

اک کم ظرف کے ساتھ گزارا ہے آج کل

ہم نے تو عمر سے ہی نکالا ہے آج کل


سایہ بری نگاہ کا لگتا ہے چاند پر

یوں بے سبب جو روٹھتا رہتا ہے آج کل


دل کو غمِ فراق کی عادت ہے اس قدر

پا کر تجھے حالات سے ڈرتا ہے آج کل


اس سے قبل کہ ٹوٹ سکیں خواب بیچ دو

شیشے کے مال کا کیا بھروسہ ہے آج کل


بیٹھیں تو سوچیں گھیر لیں ، سوچیں تو حیرتیں

محفل سجانے والا ہی تنہا ہے آج کل


ضدی پہاڑ پر کبھی اگتی ہے گھاس کیا

تم نے تو خوں چھڑک کے بھی دیکھا ہے آج کل


آنکھوں کی کور میں کوئی رستی نمی سی ہے

لہجہ ہمارا اس لیے شستہ ہے آج کل

No comments:

Post a Comment