Friday, April 2, 2010

ہم کو آنا ہے پھر خواب کے جال میں

اب گریزاں ہیں جینے کےسب راستے
وقت رکتا نہیں پیار کے واسطے
دل میں بجتی ہے جانجھر ترے نام کی
آنکھ سوئی ہوئی خواب ہیں ناچتے

ترے پہلو میں جلتے گلاب ادھ کھلے
میری آنکھوں سے اتنے پرے بھی نہیں
پھر بھی لگتا ہے کیوں مجھ کو جانِ حیا
جیسے دھرتی پہ تیرے سا ئے بھی نہیں

تم سرابوں حجابوں کے پردوں میں ہو
میں محبت کی بھٹکی کتا بوں میں ہوں
چاند کے سامنے ریت ہی ریت ہے
اور میں خواہشوں کے عذابوں میں ہوں

تیرے پیروں سے لپٹا ہے ما ضی ترا
اور میں اپنے حالات کی چال میں
زند گی ڈیٹھ ہے یو ں گزرتی نہیں
ہم کو آنا ہے پھر خواب کے جال میں

ہو سکے ایک دن یونہی آجانا تم
جیسے بھولے سے پنچھی کوئی آتا ہے
جیسے سادہ و بنجر پڑے کھیت میں
آب باراں سے سبزہ نمو پاتا ہے

No comments:

Post a Comment