اب گریزاں ہیں جینے کےسب راستے
وقت رکتا نہیں پیار کے واسطے
دل میں بجتی ہے جانجھر ترے نام کی
آنکھ سوئی ہوئی خواب ہیں ناچتے
ترے پہلو میں جلتے گلاب ادھ کھلے
میری آنکھوں سے اتنے پرے بھی نہیں
پھر بھی لگتا ہے کیوں مجھ کو جانِ حیا
جیسے دھرتی پہ تیرے سا ئے بھی نہیں
تم سرابوں حجابوں کے پردوں میں ہو
میں محبت کی بھٹکی کتا بوں میں ہوں
چاند کے سامنے ریت ہی ریت ہے
اور میں خواہشوں کے عذابوں میں ہوں
تیرے پیروں سے لپٹا ہے ما ضی ترا
اور میں اپنے حالات کی چال میں
زند گی ڈیٹھ ہے یو ں گزرتی نہیں
ہم کو آنا ہے پھر خواب کے جال میں
ہو سکے ایک دن یونہی آجانا تم
جیسے بھولے سے پنچھی کوئی آتا ہے
جیسے سادہ و بنجر پڑے کھیت میں
آب باراں سے سبزہ نمو پاتا ہے
No comments:
Post a Comment