خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دے
اپنے دیوانے کو رو رو کے ہی مر جانے دے
درد کی قید میں جینے کی یہ شرطیں کیسی
غم کا خنجر مری گردن میں اتر جانے دے
اپنے آنچل سے ہوا دےمرے شعلوں کو اب
راکھ کے ڈھیر کو خوشبو میں بکھر جانے دے
اس سے پہلے کہ تجھے غیر کا ہوتے دیکھوں
لے لے آنکھیں مری مجھ کو بے بصر جانے دے
No comments:
Post a Comment