Saturday, April 17, 2010

خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دو


خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دے
اپنے دیوانے کو رو رو کے ہی مر جانے دے

درد کی قید میں جینے کی یہ شرطیں کیسی
غم کا خنجر مری گردن میں اتر جانے دے

اپنے آنچل سے ہوا دےمرے شعلوں کو اب
راکھ کے ڈھیر کو خوشبو میں بکھر جانے دے

اس سے پہلے کہ تجھے غیر کا ہوتے دیکھوں
لے لے آنکھیں مری مجھ کو بے بصر جانے دے

No comments:

Post a Comment