Thursday, April 1, 2010

روز رویا نہ کرو سامنے آ کر یونہی

روز رویا نہ کرو سامنے آ کر یونہی
لوگ ہو جاتے ہیں انسان سے پتھر یونہی

لوگ آدھے کٹے پھر بھی جیے جاتے ہیں
بیٹھ جاتا ہے تو ہر بات کو لے کر یونہی

ابھی تو دشت میں آندھی کے عذاب آنے ہیں
ابھی بدلا ہے ہوائوں نے یہ تیور یونہی

ناخدائوں نے مجھے بیچ سمندر پھینکا
میں نے دیکھا تھا ابھی پیچھے کو مڑ کر یونہی

ڈھونڈنے نکلے تھے جنت کو بتوں کے پہلو میں
ہم زمانے کی نظر میں ہوئے کافر یونہی

ہم سناتے بھی تو کیا ہم کو سمجھتا کوئی
ہم سلگتے ہی رہے اندر و اندر یونہی

No comments:

Post a Comment