Monday, April 5, 2010

ان بتوں سے امید کیا رکھنا

ان بتوں سے امید کیا رکھنا
آگئے ہو تو سر جھکا رکھنا

بات کرنا یہاں دیواروں سے
بتکدے میں نہ آئینہ رکھنا

جان و دل کی نیاز لائے ہو
جگ ہنسائی کا حوصلہ رکھنا

ایک خواہش کا ہاتھ تھامو جب
باقی خوابوں سے فاصلہ رکھنا

خون جذبوں کا ہو نہ جائے کہیں
ضبط کرنے میں ضابطہ رکھنا

خشک پتھر ہے سوچ لینا تم
جب کبھی چاند سے گلہ رکھنا

عشق میں معجزہ ضروری ہے
عقل سے پھر بھی رابطہ رکھنا

No comments:

Post a Comment