وہ جانتا ہے بڑھاپا بہت بری شے ہے
اور ایسے حال میں وارث بھی جب کوئی نہیں/ نہ ہو
مگر وہ ضدّی کسی وعدہِ وفا کا اسیر
ضعیف و بے کس و بیمارو مردہ لفظوں کو
اٹھا کے رکھتا ہے کاغذ پہ اور ہونٹوں پر
جگر کا خون چھڑکتا ہے روح پھونکتا ہے
ہر ایک بات میں قصے میں اور کہانی میں
گھما پھرا کے انہیں کو سخن میں لاتا ہے
غلام قوم کا گمنام سا کوئی شاعر
غلام قوم کا گمنام سا وہ اک شاعر
غلام قوم کا گمنام سا وہ اک شاعر
جو اپنی مادری بولی سے عشق کرتا ہے
No comments:
Post a Comment