Monday, December 30, 2013

اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا

نیلگوں آسمان لگتی ہے
یہ زمیں دور سے کبھی دیکھو
نارسائی میں خوشنمائی ہے
دھول اڑتی ہے چاند پر ورنہ

دشت ناپید ہوتے جاتے ہیں
شورو غل بڑھ رہا ہے روز بروز


ہجر میں وصل کو ترستے تھے
وصل میں ہجر یاد آتا ہے
یہ نظر بھاگتی ہے منظر سے


بے شمار ان کہے سوالوں کو
ذہن میں دم دیے رکھوں کب تک
سوچ میں کچھ ابلتا رہتا ہے

کس قدر کرب ہے ذرا سوچو
میرے چاروں طرف ہے بھیڑ مگر

ایک بھی بالغ الدماغ نہیں



طفلِ ناداں کی سوچ کی حامل
روز بنتی بگڑتی رہتی ہے
کچی مٹی سی بھربھری دنیا


کتنی فرسودہ سی لگے اب تو
جب نئی ہوگی تب نئی ہو گی


اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا










No comments:

Post a Comment