نیلگوں آسمان لگتی ہے
یہ زمیں دور سے کبھی دیکھو
نارسائی میں خوشنمائی ہے
دھول اڑتی ہے چاند پر ورنہ
دشت ناپید ہوتے جاتے ہیں
شورو غل بڑھ رہا ہے روز بروز
ہجر میں وصل کو ترستے تھے
وصل میں ہجر یاد آتا ہے
یہ نظر بھاگتی ہے منظر سے
بے شمار ان کہے سوالوں کو
ذہن میں دم دیے رکھوں کب تک
سوچ میں کچھ ابلتا رہتا ہے
کس قدر کرب ہے ذرا سوچو
میرے چاروں طرف ہے بھیڑ مگر
ایک بھی بالغ الدماغ نہیں
طفلِ ناداں کی سوچ کی حامل
روز بنتی بگڑتی رہتی ہے
کچی مٹی سی بھربھری دنیا
کتنی فرسودہ سی لگے اب تو
جب نئی ہوگی تب نئی ہو گی
اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا
No comments:
Post a Comment