یہ جو دن رات ہیں پردے ہیں سفید اور سیاہ
جو مری عمر پہ گرتے ہی چلے جاتے ہیں
میرے بس میں ہو اگر پھاڑ کے پھینکوں ان کو
اور اندر سے نکالوں میں چمکتا ماضی
اور اندر سے نکالوں وہ چمکتا ماضی
اور اندر سے نکالوں وہ چمکتا ماضی
اور مرضی کے کسی خواب سے رنگیں پل کو
کھینچتا کھینچتا دہلیزِ ابد تک لائوں
!مستقل کردوں جوانی کو محبت کو وفا کو
No comments:
Post a Comment