Sunday, December 1, 2013

جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے

ترو تازہ گلاب اور کلیاں
کیوں سمجھتا ہے تیرا ہی حق ہیں
دوسروں کو بھی کچھ مہکنے دے
دوسرے بھی تو ان کے طالب ہیں
تو ذرا کانٹوں سے بہل کر دیکھ
یہ بھی  تو باغ کی حقیقت ہیں

میری بیٹی ہے کائینات مری
اور بیٹا نظر کی راحت ہے
ان کی ماں سے مگر عداوت ہے
کس قدر خود غرض ہے انساں بھی

-----------------
جو بھی ہوتا ہے ہوتا آیا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے
مرگ و شادی کوئی نئے تو نہیں
درد و راحت پرانی باتیں ہے
چھوڑ دے ہاتھ ڈھیلے غم نہ کرو
وقت کا دھارا من کا موجی ہے
اپنی موجوں میں بہتا جاتا ہے
اور سب کچھ بہاتا جاتا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے

No comments:

Post a Comment