ہم آلو لینے بازار گئے تھے
وہ کہہ رہی تھی کہ علی آلووں والے پراٹھوں کا شوقین ہے
وہ کہہ رہی تھی کہ صبح علی کے لنچ بکس میں آلووں والے پراٹھے رکھنے ہیں
ہم آلو لینے بازار گئے تھے
میں نے آلو خریدے،
دکان دار کو پیسے دیے
تو وہ بولی آلو مجھے پکڑا دو
میں نے آلو پکڑانے کے لیے ہاتھ بڑھایا
"پکڑو"
میں پھر بولا
"پکڑ بھی لو"
اس نے جواب نہ دیا
جب میں نے پچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بائک سے نیچے گری ہوئی تھی
دور کہیں گولیوں کی آواز آرہی تھے
ڈاکووں کا پولیس مقابلہ تھا شاید
پر ہم تو آلو لینے بازار گئے
میں بوکھلاہٹ میں آلو اور بائک گرا کر اس کی طرف بھاگا
سرخ خون کا دھارا اس کے سر سے پھوٹ رہا تھا اور گلی کی گندی نالی میں جاکر گر رہا تھا
"میں نے چیخ کر کہا
تم آلو لانے کے لیے مجھے بازار لائی تھی
" تم نے آلو پکڑے کیوں نہیں
وہ خموش تھی
بھائی صاحب قسم لے لو، ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں
ہم تو بس آلو لینے بازار گئے تھے
No comments:
Post a Comment