جون کے نام
پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا
کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا
اک نظر دیکھ لیا چلتے ہوئے اس کو بھی
دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا
منطق
پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا
کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا
درد سانجھا ہوتو مل بیٹھ کے ہلکا کیجے
عشق پہ تکیہ نہ کیجے جو بدن پرور ہو
ظاہری حسن تو پتھر پہ دیکھا ہم نے
No comments:
Post a Comment