Thursday, June 5, 2014

دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا


جون کے نام

پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا

کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

اک نظر دیکھ لیا چلتے ہوئے اس کو بھی
دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا

منطق
پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا
کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

درد سانجھا ہوتو مل بیٹھ کے ہلکا کیجے


عشق پہ تکیہ نہ کیجے جو بدن پرور ہو
ظاہری حسن تو پتھر پہ دیکھا ہم نے


No comments:

Post a Comment