Friday, June 6, 2014

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے
اور کچھ دیر ذرا خود سے شناسا ہوئیے

آنکھ اور کان کی آلودگی پھیلاتی ہوئی
باہری دنیا سے کچھ لمحوں کی رخصت لیجے


ڈوبتے ڈوبتے بچ جاتے کوئی اور کبھی
پار ہوتی ہوئی کشتی کو لہر لے جائے
اب نکل آئے محبت کے علاقوں سے مگر
کون جانے کہ کہاں پھر سے سفر لے جائے

No comments:

Post a Comment